بدھ، 9 ستمبر، 2015

اساسِ دین:

ہمارے ہاں مذہبی سوچ کی جس قدر فراوانی پائی جاتی ہے اسی قدر اپنی سوچ کو حتمی سمجھ کر عدم برداشت کا رویہ بھی عام ہے۔ مذہب دلیل کی بنیاد پر قائم ہے۔ مباحث اور اختلاف علم کی بنیاد ہیں۔ سوال نہ جنم لیں تو جواب غیر اہم ہو جایئں۔ سوال اٹھتا ہی وہاں سے ہے جہاں کوئی سوچنے والا ذہن کارفرما ہو۔۔ سوچنے کو پروردگار کے ہاں بڑی منزلت سے دیکھا جاتا ہے ۔ دین اسلام اپنی ہمہ گیریت کے دامن میں ذہنِ رسا کے تمام پہلو سمیٹے ہوئے ہے۔ اور نارسائی کے تمام گوشے بھی اس سے ماورا نہیں ہیں۔ مگر کیا کیجئے اس وابستگی کا کہ جو دین کے ساتھ تو ہے مگر فہم سے ہمیں گریزاں رکھتی ہے۔ عقل سے بھی شاذ ہی ہم کوئی واسطہ رکھتے ہیں ۔ مختصر اگر بیاں ہو تو بات یہ ہے کہ تین ستونوں پر علم دین کی عمارت استوار ہے۔ اور ہمارا چلن یہ ہے کہ کسی کے ہاتھ بنیاد کا پتھر ہے تو کسی کی آنکھ پہلو میں بنے نقش و نگار کو جبریل کا آخری پیغام سمجھ رہی ہے۔ 
  • عقائد کے بیان کیلئے علمِ کلام 
  • اطوار کی رہنمائی کیلئے علمِ فقہ
  • تزکیہ و تربیت کیلئے علمِ احسان، علمِ سلوک یا علمِ تصوف
یہ تمہید ایک طویل مباحثہ کی بنیاد نہیں ھے بلکہ ایک طویل بحث کا اختتام ضرور ھے۔  

اسلام سے وابستگی یا مذہبی ذہن رکھنا کسی قید خانے میں بند رہنے کا نام نہیں ہے۔  دماغ سے بیزاری برتنے اور عقل سے کلی براٗت کا اظہار مومن کا شیوہ نہیں ھے۔ مومن فراست سے کام لیتا ھے۔
دین کی ہمہ گیریت کا مطالعہ اشد ضروری ھے۔
خدا کی کائنات کی جتنی وسعتیں ہیں ۔۔ رسول ﷺ کی ذات میں جو ہمہ جہتی اور آفاقیت ھے مومن کی شخصیت ان مظاہر کا پرتو ہونی چاہیئے۔ 
علم کلام تک محدود رہنا ، فقہ کی تفہیم  و اشاعت کی مجالس برپا کر لینا اگر کافی ہے تو تزکیے کے میدان کو ملحدوں کیلئے رکھ چھوڑنا ہے کیا ؟ 
یہی معاملہ اگر الٹ ہو تب بھی تصور دین ناقص ہے۔ 
بڑے بڑے علما جو تصوف کو نظر انداز کرتے ہوئے دیکھے اور سنے جاتے ہیں دراصل وہ اپنے دامن کو تو تر رکھے ہوئے ہوتے ہیں ، مگر یہ گوارا نہیں کرتے کہ مبادا کوئی امتی دامنِ رحمت کی آغوش میں آ جائے۔۔ 
خدا کے نام پر خدا اور خدا کے بندوں سے دھوکہ ختم ہونے کو ہے۔  بندے  تہذیبِ جدید کی روشنی سے نگاہیں خیرہ کرنے نکلے تھے اور بینائی سلامت رہنے پر اب رب کو پلٹیں گے۔
 کہ 
یہ صناعى مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

منگل، 8 ستمبر، 2015


قومی_زبان_اور_برقی_ذرائع_ابلاغ

افسوس کا مقام ہے کہ اب اپنی قومی زبان کی افادیت اجاگر کرنے کیلئے دستاویزی پروگرامات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ ٹی وی چینل تعارفی رپورٹس پیش کر رہے ہیں۔ 
مگر المیہ یہ ہے کہ غلط تلفظ عام ہے اور جملوں کی ساخت مضحکہ خیز حد تک کوتاہ علمی کا نمونہ ہوتی ہے۔ الفاظ کی ادائیگی اور بدن بولی کا تال میل کیا خاک ہو۔۔ یہاں تو لہجہ بھی اذیت ناک ھوتا ہے۔۔ مثلا’’ شاہد آفریدی کا چھکا ،کہیں کوئی اندھا قتل ، چترال میں زلزلہ اور جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں ۔۔۔۔۔ سب کچھ کان پھاڑتی موسیقی کے پس منظر میں مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والا بے اختیار جملے کے اختتام پر تالیاں پیٹنا شروع کر دے ۔۔
خبر کی زبان بھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ اردو اور انگریزی کا ملغوبہ اور اس پر سنسناتا ہوا لہجہ طبیعت میں ہیجان اور اشتعال پیدا کرتا ہے ۔۔
ادھر عام فہم الفاظ اور اصطلاحات دستیاب ہوتے ہوئے بھی جبرا’’ انگریزی الفاظ کو جملوں میں جڑا جاتا ہے ۔۔ ظاہر ہے کہ نااہل کی ذمہ داری/ نگرانی میں قوم کا اجتماعی لہجہ خراب کیا گیا ہے۔ امید ہے عدالتی فیصلے کے بعد کئی گھر سکھ پائیںگے 
 ۔۔


کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ صرف صحافیانہ پسِ منظر میں اردو بربریت کا شکار ہے۔ ٹی وٰی پر تو پیشہ ور صحافی بہت کم ہیں لیکن جو ہیں وہ بھی انگریزی دانی کا مظاہرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔۔
اردو اخبارات کسی حد تک اس طوفان بد تمیزی سے محفوظ تھے مگر اب وہ بھی آلودہ ہوئے جاتے ہیں۔۔ عدالت کا فیصلہ اگرچہ جان کنی کے وقت سے ذرا پہلے آ گیا ہے تو اس پر بہرحال خراج تحسین بنتا ہے ورنہ اگر یہی فیصلہ سال دو سال بعد آتا توہم پھرماہریں زبان جاپان اوربھارت سے منگواتے۔۔۔
اردو کی افادیت و صلاحیت پربہت لکھا جا سکتا ہے۔۔ اس کے لئے کوئی اور نشست سہی۔۔