منگل، 8 ستمبر، 2015


قومی_زبان_اور_برقی_ذرائع_ابلاغ

افسوس کا مقام ہے کہ اب اپنی قومی زبان کی افادیت اجاگر کرنے کیلئے دستاویزی پروگرامات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ ٹی وی چینل تعارفی رپورٹس پیش کر رہے ہیں۔ 
مگر المیہ یہ ہے کہ غلط تلفظ عام ہے اور جملوں کی ساخت مضحکہ خیز حد تک کوتاہ علمی کا نمونہ ہوتی ہے۔ الفاظ کی ادائیگی اور بدن بولی کا تال میل کیا خاک ہو۔۔ یہاں تو لہجہ بھی اذیت ناک ھوتا ہے۔۔ مثلا’’ شاہد آفریدی کا چھکا ،کہیں کوئی اندھا قتل ، چترال میں زلزلہ اور جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں ۔۔۔۔۔ سب کچھ کان پھاڑتی موسیقی کے پس منظر میں مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والا بے اختیار جملے کے اختتام پر تالیاں پیٹنا شروع کر دے ۔۔
خبر کی زبان بھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ اردو اور انگریزی کا ملغوبہ اور اس پر سنسناتا ہوا لہجہ طبیعت میں ہیجان اور اشتعال پیدا کرتا ہے ۔۔
ادھر عام فہم الفاظ اور اصطلاحات دستیاب ہوتے ہوئے بھی جبرا’’ انگریزی الفاظ کو جملوں میں جڑا جاتا ہے ۔۔ ظاہر ہے کہ نااہل کی ذمہ داری/ نگرانی میں قوم کا اجتماعی لہجہ خراب کیا گیا ہے۔ امید ہے عدالتی فیصلے کے بعد کئی گھر سکھ پائیںگے 
 ۔۔


کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ صرف صحافیانہ پسِ منظر میں اردو بربریت کا شکار ہے۔ ٹی وٰی پر تو پیشہ ور صحافی بہت کم ہیں لیکن جو ہیں وہ بھی انگریزی دانی کا مظاہرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔۔
اردو اخبارات کسی حد تک اس طوفان بد تمیزی سے محفوظ تھے مگر اب وہ بھی آلودہ ہوئے جاتے ہیں۔۔ عدالت کا فیصلہ اگرچہ جان کنی کے وقت سے ذرا پہلے آ گیا ہے تو اس پر بہرحال خراج تحسین بنتا ہے ورنہ اگر یہی فیصلہ سال دو سال بعد آتا توہم پھرماہریں زبان جاپان اوربھارت سے منگواتے۔۔۔
اردو کی افادیت و صلاحیت پربہت لکھا جا سکتا ہے۔۔ اس کے لئے کوئی اور نشست سہی۔۔
 

1 تبصرہ: